۲۰۲۲ ستمبر
(سماجی رویوں پر مبنی ایک سچی کہانی )
ایک دن جب کہ بیگم بہت خوش گوار موڈ میں کرسی پر بیٹھی نمرہ احمد کا ناول میں انمول پڑھ رہی تھیں، مجھے شرارت سوجھی اور میں نے کہا:
’’ساریہ! اچھا یہ بتاؤ، تمہارے بارے میں یہ بات کیوں مشہور تھی کہ تم کچھ کم عقل، بلکہ پاگل تھیں؟‘‘
’’تو اس میں غلط کیا تھا؟ اگر میں کم عقل اور پاگل نہ ہوتی تو آپ کے ساتھ شادی کرتی۔‘‘
بیگم شرارت پر آمادہ تھیں، مگر آج میں واقعی ان سے اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے موڈ میں تھا۔جب میں نے ان کے گھر پیغام بھیجنے کا ارادہ کیا تھا، اس وقت کئی جگہوں سے ایک ہی بات معلوم ہوئی تھی کہ لڑکی کچھ کم عقل بلکہ پاگل تھی، اسی لیے اسے طلاق ہوگئی تھی۔وہ تو اللہ بھلا کرے ہمارے دوست رفاقت علی کا، انہوں نے بتایا کہ یہ بات بالکل غلط ہے۔سسرال والوں نے یوں ہی بہت سی باتیں اس خاتون کے بارے میں اڑا رکھی تھیں۔
جب ساریہ سے میری شادی ہوگئی تو کچھ دن بعد ہی اندازہ ہوگیا کہ وہ ایک بہت ہی ذہین، سلیقہ مند اور سمجھدار عورت تھی۔اس طرح کی عورتیں تو ہمارے سماج میں بہت کم یاب تھیں۔
ساریہ مجھے شرارت بھری نظروں سے مسلسل دیکھے جارہی تھی۔جب میں نے کئی بار اپنا سوال دہرایا تو اس نے اپنی زندگی کے اس عجیب راز سے پردہ اٹھایا:
مجھے علم نہ تھا کہ میری ساس نے گھر اور محلے میں میرے بارے میں کیا کیا باتیں مشہور کر رکھیں ہیں۔ایک دن میرے میکے کی تین چار خواتین سسرال میں مجھ سے ملنے آئیں ۔یہ میرے پڑوس کی خواتین تھیں ۔ اتفاق سے ان کی میری سسرال میں بھی کوئی پرانی رشتے داری تھی۔میں کپڑے سینے میں مشغول تھی۔میں نے مشین بند کی اور ان خواتین کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔وہ خواتین میری خیریت دریافت کرنے لگیں، میرے گھر کے حالات بتانے لگیں۔
عطیہ میری ہم عمر تھی۔کہنے لگی:
’’ساریہ باجی! کیا ہوا؟ بولنا اور باتیں کرنا کیا تم بھول گئی ہو؟ بس مسکرائے جارہی ہو، وہاں طوی میں تو تم ایسی نہ تھیں، تم تو بلبل کی طرح چہچہاتی رہتی تھیں۔‘
’’ ارے بلا وجہ کیا بولوں؟ کام بھر تو بول رہی ہوں۔‘‘
اب میں عطیہ کو کیسے بتاتی کہ ساس اماں کی سخت تاکید تھی کہ کوئی ملنے جلنے آئے تو اس سے بہت کم بات کروں، ایک بار محلے کی سبکتارا چچی آئیں، میں نے کچھ بے تکلفی اختیار کی تو ان کے جانے کے بعد ساس اماں نے بہت فضیحت کی تھی، کہنے لگیں:
’’تم کو کچھ عقل ہے، ایسے ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھیں جیسے اپنے گھر میں بیٹھی ہو، ارے سسرال ہے، یہاں الگ طریقے سے رہا سہا جاتا ہے۔تمہاری امی نے تمہیں کچھ سکھایا پڑھایا نہیں ہے؟ ہماری ساس ،اللہ انھیں جنت میں جگہ دے، کیا مجال تھی کہ کوئی بہو ان کے سامنے زبان کھول دے،کوئی باہر کا آئے تو چپ چاپ رہا کرو۔آئندہ ایسی غلطی نہ ہونے پائے۔‘‘
بچپن میں گھر پر امی اور دادی بھی تاکید کیا کرتی تھیں کہ ساریہ ایک خاموشی سو بلاؤں سے محفوظ رکھتی ہے ۔خاموش رہنے سے بہت سے کام نکل جاتے ہیں۔
دادی، امی کی نصیحتیں اور ساس کی خواہش، میں نے سسرال میں ایک طرح سے چپ کا روزہ رکھ لیا تھا، بہت کم باتیں کرتی، ہر دم کاموں میں لگی رہتی۔
ساس اماں نے اشارہ کیا تو میں کچن میں مہمانوں کے لیے چائےبنانے چلی گئی، چائے ناشتہ لے کر واپس آئی تو عطیہ ،اس کی امی اور اس کی بھابھی مجھے بہت گھور گھور کر حیرت انگیز نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں جیسے وہ میرے اندر کچھ تلاش کر رہی ہوں۔بعد میں جب ایک دفعہ میں میکے گئی اور عطیہ سے ملاقات ہوئی تو وہ کہنے لگی:
’’ساریہ! تم کو کیا ہوگیا ہے؟ تمہاری ساس کہہ رہی تھیں کہ بہت کم بولتی ہے، زیادہ تر چپ چاپ رہتی ہے، مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ کچھ پاگل ہے، کیا اس کی اور بہنیں بھی ایسی ہی ہیں، کیا یہ پہلے سے ایسی تھی؟‘‘
میں نے جلدی سے بتایا ’’ارے چچی !کیا باتیں کرتی ہیں ، یہ تو اپنی سات بہنوں میں سب سے زیادہ ذہین اور سلیقہ مند مشہور تھی۔آپ کے یہاں آنے کے بعد پاگل کیسے ہوگئی؟ ‘‘
میں عطیہ کی باتوں پر مسکرا کر رہ گئی، کچھ کہتی سنتی تو سسرال والوں کی بے عزتی ہوتی اور یہ مجھے بالکل پسند نہ تھا۔
اکیسویں صدی میں بھی میری سسرال کی دنیا وہی تھی جو میں سو سال پہلے لکھی گئی کہانیوں اور ناولوں میں پڑھتی تھی۔میرے شوہر سفیہ(بدلا ہوا نام) نے کسی مدرسے سے تعلیم حاصل کی تھی۔جب میری شادی کی بات ہورہی تھی تو میں بہت خوش تھی، میں سوچتی تھی کہ دینی تعلیم سے آراستہ شریک حیات شریعت کی روشنی میں میرے ساتھ معاملات کرے گا اور میری زندگی بہت اچھی گزرے گی، مگر افسوس کہ وہ تو جاہلوں سے بڑھ کر جاہل نکلا۔دینی مدرسے سے اس نے چند ڈگریاں تو لے لی تھیں ،مگر دین اور اخلاق تو اسے چھو کر بھی نہ گزرے تھے۔
وہ سرے سے بیوی کے حقوق جانتا ہی نہ تھا۔وہ بیوی کو ایک ملازمہ سمجھتااور اسے پاؤں کی جوتی سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہ تھا، اس نے کبھی مجھے عزت سے آواز نہ دی، اس کا لہجہ بھی بہت سخت اور گنواروں جیسا ہوتا۔
شام میں جب وہ دوکان سے واپس آتا تو کھانے کے بعد امی کے پاس بیٹھ جاتا، امی دنیا جہاں کی باتیں کرتیں، نہ جانے وہ ہر روز کیسے میری بھی دو چار شکایات تیار کر لیتیں،حالانکہ میں پورے دن کوشش کرتی کہ انہیں شکایت کا کوئی موقع نہ ملے، اس چکر میں پورے دن کام دھندے میں لگی رہتی اور ایک منٹ بھی آرام نہ کرپاتی۔
سفیہ جب میرے کمرے میں آتے تو فوراً ہی سوالات کا سلسلہ شروع کردیتے، انھیں میرے جوابات سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ہوتی ، وہ میرے جوابات پر غور کرنے کے بجائےمجھے ڈانٹنا شروع کردیتے،وہ اکثر کہتے:
’’ کیا میری امی غلط کہیں گی؟‘‘
’’امی کے بارے میں مجھے ایک لفظ بھی نہیں سننا ہے۔‘‘
’’تم وضاحتیں نہ کیا کرو، بس چپ چاپ غلطی مان لیا کرو۔‘‘
’’ آج تم نے امی سے کیوں زبان لڑائی، کیا خاموشی رہتی تو چھوٹی ہوجاتی؟‘‘
اگر میں امی سے کسی معاملے میں صفائی پیش کرتی تو امی اسے جواب دینا اور زبان لڑانا کہتیں اور یہی میرے شوہر سفیہ بھی کہتے۔
کچھ دن کے تجربات کے بعد میں نے جواب دینا اور وضاحت کرنا ہی بند کردیا، اب سفیہ سمجھتے کہ سچ مچ میں ویسی ہی ہوں جیسی ساس اماں انھیں بتاتی ہیں۔دسمبر اور جنوری کی کتنی ہی سرد راتیں میں ان کے بیڈ کے پاس پڑی چھوٹی چوکی پر ایک معمولی شال میں ٹھٹھرتی ہوئی گزار دیتی، وہ ذرا بھی ناراض ہوتے تو مجھے اپنے بستر میں آنے سے سختی سے منع کردیتے،وہ کہتے :’’شریعت کی روشنی میں سرکش بیوی کی یہی سزا ہے کہ اسے بستر سے الگ کردیا جائے۔‘‘باہر جانا میرے لیے ممکن نہ ہوتا، اس لیے کہ ساس اور نندیں کسی تعاون کے بجائے اسے ایک بڑا مسئلہ بنا ڈالتیں۔
کچھ دنوں بعد میرے شوہر اور ساس دونوں اس بات پر متفق ہوچکے تھے کہ میں ایک حد تک ضرور پاگل ہوں۔
ساس اماں بہت ٹھسے کی عورت تھیں،روایتی ساسوں کے تمام اوصاف ان میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔ان کی پوری زندگی اپنی ساس کے ساتھ مہابھارت میں گزری تھی،میرے ہر کام میں عیب نکالنا اور معمولی باتوں پر ڈانٹ ڈپٹ کرنا وہ اپنا ’’سسیا حق‘‘ سمجھتی تھیں۔ان کے لیے یہ امر حیرت انگیز تھا کہ ایک بہو کیسے ساس کی ہر بات چپ چاپ برداشت کر لیتی ہے۔وہ سچ مچ سمجھتی تھیں کہ خاموش رہنے والی، جواب نہ دینے والی بہو پاگل ہی ہوسکتی ہے۔
ساس اور شوہر نے جب مجھے پاگل کہنا شروع کیا تو دھیرے دھیرے پڑوس اور محلہ والوں نے بھی مجھے کم عقل سمجھ لیا تھا۔کوئی گھر پر آتا تو میں اس سے بات کرنے کے بجائے چپ چاپ اپنے کاموں میں مصروف رہتی،یا بہت ضروری حد تک ہی بات کرتی ۔کچھ سمجھدار لوگ حیرت زدہ بھی رہتے کہ بہترین کھانا پکانے والی، اچھے سے اچھے کپڑے سینے والی، ہر کام بہت سلیقے سے انجام دینے والی بہو پاگل اور کم عقل کیسے ہوسکتی ہے؟
تھوڑے عرصے بعد مجھے احساس ہوا کہ میرے شوہر میرے علم وشعور اور سلیقہ مندی کی وجہ سے مجھ سے احساس کمتری کے شکار ہوگئے ہیں۔ امی کے مسلسل ورغلانے اور اکسانے کی وجہ سے وہ مجھے ذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔رفتہ رفتہ یہ ان کی عادت کا ایک حصہ ہوگئی، انہیں شاید احساس بھی نہیں ہوا کہ ایک حساس بیوی شب وروز کس کرب سے گزرتی ہے، اور پل پل مرتی ہے۔میں ہمیشہ ان کی خدمت اور ناز برداری کرتی، مگر ان کی معمولی توجہ اور نگاہ الفت حاصل کرنے سے محروم رہتی۔
پھر ایک دن بہت معمولی بات پر میرے شوہر نے ساس اماں کے بھڑکانے پر مجھے طلاق دے دی۔یہ میری زندگی کا ایک اور حادثہ تھا، مجھے یقین نہ آتا تھا کہ میری قربانیوں کا یہ صلہ مجھے ملے گا۔میں کئی سال تک اپنے مقدر پر روتی اور اپنے رب سے فریاد کرتی رہی۔
کسی وجہ سے اگر کسی لڑکی کا طلاق ہوجائے تو وہ اپنے گھر پر بوجھ بن جاتی ہے۔گھر کے کچھ لوگ تو اسے منحوس سمجھتے ہیں ،تو کچھ لوگ اسے ہی طلاق کا ذمہ دار بھی سمجھنے لگتے ہیں، چاہے اس میں لڑکی کا کوئی قصور نہ ہو بلکہ وہ مظلوم ہو ۔
میرا گھر بھی اس سے کچھ جدا نہ تھا، میں دن رات سرجھکائے کاموں میں مشغول رہتی اس امید میں کہ شایدکوئی میرے حق میں کبھی تعریف کے دو جملے کہہ دے، مگر یہ آرزو کبھی پوری نہ ہوئی۔بوڑھے والدین بیٹوں کے محتاج تھے۔ جب کہ میری بھابھیاں روایتی بھابھیاں تھیں۔ذرا سا نو دس ہوجائے تو وہ مطلقہ نند کو ایسے بے نقط سناتیں کہ دل میں سوراخ ہوجاتا۔
بھائی اپنی زندگی میں خوش تھے،انہیں اپنی بیوی اور بچوں سے کہاں فرصت تھی۔انہیں بہن کی طرف دیکھنے اور اس کی ضروریات کی تکمیل کی کبھی کوئی فکر نہ تھی۔کچھ دنوں بعد میں پائی پائی کی محتاج بن گئی۔میں نے اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے سلائی کرنا اور ٹیوشن پڑھانا شروع کردیا۔ٹیوشن،سلائی اور پھر گھر کے کام ؛میں جذبات سے عاری ایک مشین بن چکی تھی۔میری زندگی ایک ایسی طویل تاریک رات کی طرح ہوگئی تھی، جس کی صبح ہی نہ ہو۔
میرے دن کاموں میں اور راتیں مصلے پر گزرتیں۔میں اپنے رب سے رو رو کر دعائیں تو کرتی مگر الحمدللہ میں نے کبھی اپنے رب سے اپنے حالات کا شکوہ نہیں کیا۔مجھے امید تھی کہ میرا رب مجھ پر رحم کرے گا اور میری زندگی میں بھی سکون و اطمینان کا سورج طلوع ہوگا۔
جب آپ کا رشتہ آیا تو میرے گھر کے لوگ اس کے حق میں نہ تھے، مگر میں نے استخارہ کیا اور مطمئن ہوگئی۔
کئی دن بعد ایک روز رات میں جب میں نے روتے اور ڈرتے ہوئےامی سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو وہ جیسے گنگ ہوکر رہ گئیں۔گھرانے میں ابھی تک لڑکیاں گرچہ وہ بیوہ اور مطلقہ ہی کیوں نہ ہوں، اپنے رشتے کے بارے میں کوئی رائے دینے کی جرأت نہیں کرسکتی تھیں۔امی سے یہ بات ابو اور پھر بھائیوں تک پہنچی، اور گھر والوں نے ایک دفعہ پھر کہنا شروع کیا کہ ’’ساریہ واقعی پاگل ہے۔‘‘
چھ ماہ تک گھر میں ایک عجیب کشمکش رہی، میرے لیے کئی اور رشتے آئے، مگر میں نے صاف کردیا تھا کہ مجھے نسیم صاحب( آپ )سے ہی شادی کرنی ہے۔
کئی ماہ کے بعد گھر والے میری ضد کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوگئے، مگر ہر زبان پر ایک ہی بات تھی کہ آئندہ اگر کوئی مسئلہ پیدا ہوا تو اس کی ذمہ دار تم ہوگی، گھر کا کوئی فرد تمہارے ساتھ کھڑا نہیں ہوگا۔
اللہ کافضل ہے کہ اس نے مجھ پر کرم کیا، میں اپنی اس زندگی پر نہ صرف مطمئن ہوں، بلکہ رشک کرتی ہوں، اب گھر کے لوگ بھی میرے فیصلے کی ستائش کرتے ہیں۔اللہ آپ کو سلامت رکھے۔آپ سے مجھے کبھی کوئی شکایت نہیں ہوئی، امید ہے آپ بھی مطمئن ہوں گے۔
بیگم سوالیہ نگاہوں سے میری طرف متوجہ تھیں۔میں ان کے سوال کا کیا جواب دیتا۔میں کس قدر مطمئن تھا اس کا اندازہ تو انھیں میرے ہر عمل، میری ہر بات سے ہوتا رہتا تھا۔دنیا کی سب سے بہترین متاع نیک بیوی ہے،اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب ساریہ میرے گھر میں رحمت کا ایک فرشتہ بن کر آئی۔اللہ اسے سدا سلامت رکھے۔
سماج میں اس طرح کی کہانیاں ہر طرف بکھری پڑی ہیں۔کتنی ہی مظلوم لڑکیاں سماج کے ظلم و ستم کا نشانہ بن کر زندہ درگور ہوجاتی ہیں۔سب کی قسمت ساریہ جیسی تو نہیں ہوتی۔
Comments From Facebook

5 Comments

  1. امّ ہانیہ

    ماشاء االلہ ۔قابلِ مبارکباد ہیں مصنفہ ۔کہ نہایت خوبصورت انداز میں معاشرے ر ستے ہوئے زخموں کو عیاں کیا ہے ۔فارغین مدارس کے رویوں سے لیکر روایتی ساس تک اور طلاق شدہ یا بیوہ کے ساتھ بھابیوں کے رویوں سے لیکر اُنکی دوسری شادی کے مسائل تک کا ذکر ۔۔۔گویا دریا کو کوزہ میں بند کر دیا ہے ۔۔۔ ِ

    Reply
    • فرحین شیخ

      تحریر واقعی میں جذباتی کر گئی, ایسے محسوس ہوا جیسے خاموش خواتین کی درد بھری چیخیں ہو…??

      Reply
    • Dr.Bilquis Banu

      Mashallah …bahoot khub hai…..
      But aj ke is zamane mai jahan tak mere pass family story ate is story ke barakaas yane opposite hai.. ..

      Reply
  2. محمد منظر

    واقعی دل کو جھنجھوڑ دینے اور قلب میں ایک مغموم سی کیفیت پیدا کردینے ولی تحریر ہے جو لوگ اس طرح کے رویئے رکھتے ہیں۔
    ماشاءاللہ سلامت رہیں۔

    Reply
  3. نام *تسنیم فرزانہ

    ماشاء اللہ عمدہ اور رواں دواں تحریر ایک مرتبہ شروع کی تو ختم کر کے ہی سانس لیا
    سماج میں ایس نہایت جانے کتنی خواتین ایسے درد و کرب سے گزر رہی ہیں نہ جانے کب معاشرے میں بہو کو سارے حقوق ادا کرنے کی سمجھ آئے گی اور بہو کو بیٹی کی طرح مانا جائے گا ہاں اب بہت سارے خاندانوں میں بہو کو بیٹی مانا جا رہا ہے لیکن وہاں بہو رانی اپنی رنگ دکھا رہی ہے

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

۲۰۲۲ ستمبر