’’امی! میرے ٹیچر نے یوں اور یوں کیا ۔‘‘
بیٹا محفل میں نقل بنارہا تھا اور محفل گل و گلزار بنی ہوئی تھی۔ میں دور بیٹھا سوچ رہا تھا یہ محفل تو خالص رشتے داروں کی محفل ہے، لیکن اس محفل میں میرے بیٹا کا اس طرح مذاق بناکر ہیرو بننا، اس کی شخصیت کو نقصان پہنچائے گا ۔اپنی بیوی کو دیکھا، وہ بھی سب کے ساتھ قہقہے لگا رہی تھی ۔میں نے سوچا اس سلسلے میں مجھے اپنی بیوی سے بات کرنی چاہیے۔
موقع دیکھ کر میں نے اپنے آفس کا قصہ سناتے ہوئے اسے بتایا کہ مس ذرینہ کی اپنے شوہر سےعلیحدگی ہوچکی ہے، اور ہنستا کھیلتا خاندان ختم ہوگیا۔ پتہ ہے سبب کیا رہا ؟میری بیوی تعجب سے کہنے لگی ،کیا رہا ؟صحبتیں ،جو آفس میں مس ذرینہ کو میسر تھیں ۔جہاں ہر لمحے کولیگزانہیں سمجھاتے تھے کہ شوہر کو آپ بہت برداشت کررہی ہیں ۔
میری بیوی مس ذرینہ کو جانتی تھی ،شادی کے ابتدائی دنوں میں ہم نے دعوتیں کھائی تھیں ۔مس ذرینہ اور ان کے شوہر کے تعلقات اور بچوں کے ہشاش بشاش ہونے پر اس فیملی سے رشک کرتی تھیں ۔یہ خبر اس پر بجلی بن کر گری، میں نے موقع دیکھ کر اسے کہا ۔صحبتیں آپ کی شخصیت کے لیے عمدہ دسترخوان کی طرح ہیں، جس پر لذیذ کھانے چن دئیے گئے ۔اچھی صحبت میں نشست و برخاست انسان کو روح کی پاکیزگی، دل و دماغ کو سکون دینے والا ماحول فراہم کرتی ہے ۔مقصد سے لگن پیدا ہونا، سیکھنے والوں کی صحبت اچھی بات سیکھنے کا سامان فراہم کرتی ہے ۔آپ ترقی کے خواب دیکھتے ہیں اس کی تعبیر کے لیے سعی وجہد کرتے ہیں ،اپنی ترقی کی راہ میں آنے والی پریشانیوں سے بددل نہیں ہوتے۔
سیلف ڈسپلن پیدا کرنے میں بھی صحبت کا بڑا عمل دخل ہے۔ ایک مثال سمجھیں! جن محافل میں دوسرے کی برائی کرنے اور سننے کا ماحول ہو، وہاں آپ کہے سنے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ابتداء میں آپ کے نفس پر گراں گزرتا ہے، دل کہتا ہے ،یہ چغلی ہے، غیبت ہے ،تجسس ہے، حسد ہے؛ مجھے اس سے دور رہنا چاہیے۔ آپ خاموش رہتے ہیں ،لیکن رفتہ رفتہ آپ کے سے ابھرنے والی آواز معدوم ہوجاتی ہے، آپ اس ماحول کا حصہ بن جاتے ہیں ۔
دوسرے کو جج کرنا، اس پرفقرے کسنا، حسد کرنا، اپنی ذات کا دوسرے تقابل کرنا، دوسرے کی تضحیک، حقارت یہ سب سیکھ لیتے ہیں ۔اپنی محفل کے ساتھیوں کو خوش کرنے کے لیے ہم بھی دوسرے کی برائی کرنے کی قباحت کو بھلا دیتے ہیں ۔اس لیے ابتداء ہی میں جب ایسی محفلوں میں نشست ہونے لگے ،وہاں سے فرار اختیار کرنا بہتر ہے، تاکہ اپنا سلیف ڈسپلن متاثر نہ ہو ۔اسی طرح ہر فرد کو اپنی مثبت سوچ اور ذہن کی حفاظت کرنی چاہیے ۔
آپ نے عموما ًایسی خبریں سنی ہیں، جن میں انتہائی ظلم کی کیفیت ہوتی ہے، اور یوں محسوس ہوتا ہے گویا ساری دنیا مسلمانوں کی مخالف ہوچکی ہے، یا فحاشی و عریانیت کا سیلاب امڈ آیا ہے، اب کوئی راہ نہیں بچی ۔آپ کا اضطراب بڑھتا ہے ،ہر شخص فحش نظر آتا ہے، بری خبریںمایوسی کا شکار بنادیتی ہیں ۔
پھر یہ بھی کہا جاتا ہے مسلم بے دین ہیں، اسی کا عذاب ہے، نمازیں بے اثر ہوگئیں ،اسی کے سبب ظالم مسلط ہے ۔اس طرح مایوسی ہی مایوسی انسان کو دل برداشتہ کرتی ہے ۔اس طرح کی گفتگو ہمارے دماغی صحت کو متاثر کرتی ہے۔ ایک مومن کا شیوہ یہ ہو کہ وہ انتہائی نامساعد حالات میں بھی امید کی کرن کو باقی رکھے ۔وہ تاریکی میں بھی روشنی کی امید باقی رکھے ۔وہ ایک ایسے دین پر یقین رکھتا ہے،جس کے غلبے کا اللہ نے وعدہ کیا ہے ۔شدید ترین حالات میں بھی اسلام کے غلبے کی امید رکھنااپنے دماغ کی صحت کی فکر کرنا، اور دین کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے ،اپنی ذات کو انسانوں کے لیے نافع بنانے کی سعی کرنا ہی مومن کا شیوہ ہے ۔صحبت صالح اختیار کرنااور منفی رجحان پیدا کرنے والے عوام سے بچنا ہی موجودہ ماحول میں سب سے اہم ہے ۔
بیٹا محفل میں نقل بنارہا تھا اور محفل گل و گلزار بنی ہوئی تھی۔ میں دور بیٹھا سوچ رہا تھا یہ محفل تو خالص رشتے داروں کی محفل ہے، لیکن اس محفل میں میرے بیٹا کا اس طرح مذاق بناکر ہیرو بننا، اس کی شخصیت کو نقصان پہنچائے گا ۔اپنی بیوی کو دیکھا، وہ بھی سب کے ساتھ قہقہے لگا رہی تھی ۔میں نے سوچا اس سلسلے میں مجھے اپنی بیوی سے بات کرنی چاہیے۔
موقع دیکھ کر میں نے اپنے آفس کا قصہ سناتے ہوئے اسے بتایا کہ مس ذرینہ کی اپنے شوہر سےعلیحدگی ہوچکی ہے، اور ہنستا کھیلتا خاندان ختم ہوگیا۔ پتہ ہے سبب کیا رہا ؟میری بیوی تعجب سے کہنے لگی ،کیا رہا ؟صحبتیں ،جو آفس میں مس ذرینہ کو میسر تھیں ۔جہاں ہر لمحے کولیگزانہیں سمجھاتے تھے کہ شوہر کو آپ بہت برداشت کررہی ہیں ۔
میری بیوی مس ذرینہ کو جانتی تھی ،شادی کے ابتدائی دنوں میں ہم نے دعوتیں کھائی تھیں ۔مس ذرینہ اور ان کے شوہر کے تعلقات اور بچوں کے ہشاش بشاش ہونے پر اس فیملی سے رشک کرتی تھیں ۔یہ خبر اس پر بجلی بن کر گری، میں نے موقع دیکھ کر اسے کہا ۔صحبتیں آپ کی شخصیت کے لیے عمدہ دسترخوان کی طرح ہیں، جس پر لذیذ کھانے چن دئیے گئے ۔اچھی صحبت میں نشست و برخاست انسان کو روح کی پاکیزگی، دل و دماغ کو سکون دینے والا ماحول فراہم کرتی ہے ۔مقصد سے لگن پیدا ہونا، سیکھنے والوں کی صحبت اچھی بات سیکھنے کا سامان فراہم کرتی ہے ۔آپ ترقی کے خواب دیکھتے ہیں اس کی تعبیر کے لیے سعی وجہد کرتے ہیں ،اپنی ترقی کی راہ میں آنے والی پریشانیوں سے بددل نہیں ہوتے۔
سیلف ڈسپلن پیدا کرنے میں بھی صحبت کا بڑا عمل دخل ہے۔ ایک مثال سمجھیں! جن محافل میں دوسرے کی برائی کرنے اور سننے کا ماحول ہو، وہاں آپ کہے سنے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ابتداء میں آپ کے نفس پر گراں گزرتا ہے، دل کہتا ہے ،یہ چغلی ہے، غیبت ہے ،تجسس ہے، حسد ہے؛ مجھے اس سے دور رہنا چاہیے۔ آپ خاموش رہتے ہیں ،لیکن رفتہ رفتہ آپ کے سے ابھرنے والی آواز معدوم ہوجاتی ہے، آپ اس ماحول کا حصہ بن جاتے ہیں ۔
دوسرے کو جج کرنا، اس پرفقرے کسنا، حسد کرنا، اپنی ذات کا دوسرے تقابل کرنا، دوسرے کی تضحیک، حقارت یہ سب سیکھ لیتے ہیں ۔اپنی محفل کے ساتھیوں کو خوش کرنے کے لیے ہم بھی دوسرے کی برائی کرنے کی قباحت کو بھلا دیتے ہیں ۔اس لیے ابتداء ہی میں جب ایسی محفلوں میں نشست ہونے لگے ،وہاں سے فرار اختیار کرنا بہتر ہے، تاکہ اپنا سلیف ڈسپلن متاثر نہ ہو ۔اسی طرح ہر فرد کو اپنی مثبت سوچ اور ذہن کی حفاظت کرنی چاہیے ۔
آپ نے عموما ًایسی خبریں سنی ہیں، جن میں انتہائی ظلم کی کیفیت ہوتی ہے، اور یوں محسوس ہوتا ہے گویا ساری دنیا مسلمانوں کی مخالف ہوچکی ہے، یا فحاشی و عریانیت کا سیلاب امڈ آیا ہے، اب کوئی راہ نہیں بچی ۔آپ کا اضطراب بڑھتا ہے ،ہر شخص فحش نظر آتا ہے، بری خبریںمایوسی کا شکار بنادیتی ہیں ۔
پھر یہ بھی کہا جاتا ہے مسلم بے دین ہیں، اسی کا عذاب ہے، نمازیں بے اثر ہوگئیں ،اسی کے سبب ظالم مسلط ہے ۔اس طرح مایوسی ہی مایوسی انسان کو دل برداشتہ کرتی ہے ۔اس طرح کی گفتگو ہمارے دماغی صحت کو متاثر کرتی ہے۔ ایک مومن کا شیوہ یہ ہو کہ وہ انتہائی نامساعد حالات میں بھی امید کی کرن کو باقی رکھے ۔وہ تاریکی میں بھی روشنی کی امید باقی رکھے ۔وہ ایک ایسے دین پر یقین رکھتا ہے،جس کے غلبے کا اللہ نے وعدہ کیا ہے ۔شدید ترین حالات میں بھی اسلام کے غلبے کی امید رکھنااپنے دماغ کی صحت کی فکر کرنا، اور دین کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے ،اپنی ذات کو انسانوں کے لیے نافع بنانے کی سعی کرنا ہی مومن کا شیوہ ہے ۔صحبت صالح اختیار کرنااور منفی رجحان پیدا کرنے والے عوام سے بچنا ہی موجودہ ماحول میں سب سے اہم ہے ۔
Comments From Facebook
بہت خوب واقعی اس طرح کا ماحول یر جگہ دیکھنے کو ملتا ہے ھادیہ واقعی ہمارے لئے باعث نصیحت ہے اس کے ہر عنوان عمدہ کے ساتھ ساتھ سبق آموز بھی ہوتے ہیں اللہ ہادیہ ای میگزین کی ہر ممبر کو صحت کے ساتھ اجر عظیم بھی عطا کرے آمین
اج کے ماحول کی صحیح عکاسی۔ ایسے میں اپنے کو بچاے رکھنا کسی جہاد سے کم نہیں، مثبت سوچ انسان کو بہتر ی کی طرف لے جاتی ہے۔
تحریر بہترین۔ اللہ اھل نادیہ کو سلامت رکھے۔ امین
الحمد للہ
بہت خوب اج کل کے ماحول میں یہ بات بہت عام ہوگی ہے اس لحاظ سے یہ بات کی طرف توجہ ضروری ہے
ھادیا ی میگزین نے عمدہ مضمون چنا ہے
اللہ تعالیٰ سب کوسمجھنے کی اور عمل کرنےکی توفیق عطا فرمائے آمین
Ma sha Allah bhot khub hai hadiya magzine ek mashale rah hai bhot positive thoughts hai padhne k bad ek nayi umang paida hoti hai
اس محفل سے ہم تو دور رہ لیں گے مگر ان افراد کو کیسے راہے راست دکھایا جائے؟
ھادئ اچھی سوچ کو ابھارنے کا شکریا