۲۰۲۲ ستمبر

شکوہ تمنا رنج و غم
اس جہاں کے پیچ و خم
ہو جسے دردِجہاں
گل سے لے وہ چشمِ نم
ہوجسے مقصد عزیز
کر رہے وہ دل بہم
دل ہو مثلِ پرنیاں
حرف ِالفت ہو رقم
ہر ریاسے پاک ہو
اس کا دل مثلِ حرم
ہو بصیرت پردہ سوز
اس کا دل ہو جام ِجم
ہو نگہ آفاق پر
پر فشاں اس کا قلم
اس کا نغمہ کھول دے
ساز کےسب زیر و بم
روشنی ماضی سے لے
عصرسے آگے قدم
اک نئی دنیا کا شوق
جستجو میں دم بہ دم
مےکدہ آبادہو
سب پہ ہو لطف و کرم
جب اندھیری رات ہو
بے خطر اس کا قدم
خوں بہ داماں راستے
ہر جگہ اس کا علم
ہو جدا اس کا سلوک
ہنس کے سہتا ہو ستم
تند دریا کی طرح
تیز رَو اس کا قدم
اور سورج کی طرح
ہو نفَس اس کا گرم
ہو شگفتہ مثل ِگل
اس کا چہرہ تازہ دم
سست رو شبیرؔ ہے
تیزہے اس کا قل

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

۲۰۲۲ ستمبر