۲۰۲۲ ستمبر
زمرہ : النور
خالق انس و جن نے معلم انسانیت کو پہلا حکم پڑھنے کا دیا ۔ایک ایسے دور میں جہاں تہذیب و تمدن دم توڑ رہی تھی ،شرک و بت پرستی اس طرح عام ہوئی کہ توحید کا مرکز انسانوں کے اپنے بنائے ہوئےخداؤں سے آراستہ ہوا جارہا تھا ۔معمولی وجوہات کی بنا پر قبیلے اور خاندان ایک دوسرے سےبرسر پیکار رہتے۔خالق کائنات نے محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کےلیے فرمایا کہ وہ انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ۔
رسول خدا ﷺ کا فرمان ہے انما بعثت معلما
(بے شک میں معلم بناکر بھیجا گیا ہوں ۔)
لہذا آپ نے ایک تہذیب سے ناآشنا قوم کو اپنے معلمانہ رول سے سنوار دیا۔ انہیں دنیا کا پیشوا اور امام بنا دیا ۔جس کے سایۂ عاطفت میں آنے والا ہر کردار دنیا کےلیے مثالی نمونہ بن کر ابھرا۔ جس معلم کی زبان سے نکلنے والا ہر حرف ایسا ہوتا کہ ہر ایک سننے والا بڑی سرعت کے ساتھ عمل کرلیتا۔ جب شراب حرام ہونے کی خبر پھیلی تو اس تعلیم و تدریس کا اثر ایسا کہ لوگوں نے ہونٹوں سے لگے پیالے توڑ ڈالے ۔جس معلم کی شفقت بھری نظریں کسی طالب علم پر پڑتیں، وہ ہمیشہ ہمیشہ کےلیے ان نظروں کا اسیر بن جاتا، اور اس محسن کے ہر حکم پر اپنی جان نثار کردیتا ۔
مذکورہ آیت میں’’ الکتاب‘‘ سے مراد قرآن و حدیث کا سارا علم اور’’ الحکمہ‘‘ میں دنیا کے سارے علوم سما جاتے ہیں ۔سائنس’ٹیکنالوجی‘علم نجوم ،فزیکس،کیمیسٹری،بایولوجی،یہ تمام علوم حکمت میں شامل ہیں۔
قرآن مجید کی آیت مبارکہ معلم اور متعلم دونوں کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ بہترین مربی و معلم تھے، جنہوں نے اپنی اس ذمہ داری کےلیے دن اور رات انتھک کوششوں سے اس کا حق ادا کیا۔ یہاں تک کہ قرآن کا ارشاد ہےکہ فلعلک باخع نفسک( اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیا تم ان لوگوں کےلیے اپنے آپ کو ہلاک کردو گے ۔)
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت و مشقت کی جانب اشارہ ہے۔جو اپنی ذمہ داریوں کو جانفشانی سے ادا کررہے تھے ۔چنانچہ دنیائے انسانیت کو محسن انسانیت نے درس و تدریس اور تعلیم و تربیت کے انمول اصولوں سے نوازا۔جیسے مخاطب کی نفسیات کو سمجھنا ،اس کی ذہنی استعداد و صلاحیت کے مطابق مناسب محل و موقع سے سوالات کے ذریعہ تربیت فرمانا ۔ راست مشاہدات اور آفاق و انفس میں غور و فکر کے ذریعہ اپنے مخاطبین کو سیکھتے وقت آسانیاں فراہم کرنا، اور مثالوں کے ذریعہ ذہن نشین کروانا؛آپ صل اللہ علیہ وسلم کا مخصوص طریقہ ٔتربیت رہا ہے ۔
ایک ذمہ دار معلم یہ بات بخوبی جانتا ہےکہ اس کی تدریس ایک امانت کے سوا کچھ نہیں ۔ایک ایسی امانت جس کی پاسداری کے ذریعہ وہ ملت کی کشتی کا ملاح بن کر اس کو کنارے پہنچانے والا ایک ذمہ دار شخص ہے ،جواپنی کشتی کے سارے مسافروں کو منزل تک پہنچانے کےلیے بے چین اور فکر مند رہتا ہے ۔
نقش اول ،نقش کالحجر کی سلوٹیں متعلمین کی پیشانیوں پر والدین کے بعد اپنے استاد کی ہوتی ہیں، جس کی جانفشانی،محنت،لگن،نظم وضبط، حوصلہ افزائی،تعریف و توصیف،مشفقانہ رول،اور سرگرم عمل رہنا بچوں کے ذہنوں پر ایسا نقش ہوتا ہے کہ وہ اپنی پختہ عمر میں جاکر جب اپنے ماضی کی طرف دیکھتے ہیں ،تو احسان مندانہ انداز میں اپنے والدین کے ساتھ اساتذہ کو اپنی ساری کامیابیوں کا سہرا پہنانے کےلیے بے تاب ہوجاتے ہیں ۔
ایسا اس لیےکہ وہ جانتے ہیں کہ اولین نقوش نے ان کے مستقبل کو تعمیر کیا اور جو ذرے تھے ،انہیں ماہتاب بنا دیا ۔
یوم اساتذہ کے موقع کو ہر استاد اپنے لیے ایک یاد دہانی تصور کرے کہ اس کی ذمہ داری ایک بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی زمین کے ذرے ذرے کو خود چمکنا سکھارہاہے۔

اعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
هُوَ الَّذِىۡ بَعَثَ فِى الۡاُمِّيّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡهُمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيۡهِمۡ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَاِنۡ كَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍۙ ۞
(سورۃ نمبر: 62 ،الجمعة،آیت نمبر: 2)

ترجمہ:
وُہی ہےجس نے اُمّیوں کے اندر ایک رسُول خود اُنہی میں سے اُٹھایا ، جو اُنہیں اُس کی آیات سناتا ہے، اُن کی زندگی سنوارتا ہے، اور اُن کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ حالانکہ اِس سے پہلے وہ کُھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔

نقش اول ،نقش کالحجر کی سلوٹیں متعلمین کی پیشانیوں پر والدین کے بعد اپنے استاد کی ہوتی ہیں، جس کی جانفشانی،محنت،لگن،نظم وضبط، حوصلہ افزائی،تعریف و توصیف،مشفقانہ رول،اور سرگرم عمل رہنا بچوں کے ذہنوں پر ایسا نقش ہوتا ہے کہ وہ اپنی پختہ عمر میں جاکر جب اپنے ماضی کی طرف دیکھتے ہیں ،تو احسان مندانہ انداز میں اپنے والدین کے ساتھ اساتذہ کو اپنی ساری کامیابیوں کا سہرا پہنانے کےلیے بے تاب ہوجاتے ہیں ۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

1 Comment

  1. توفیق الماس

    تبصرہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ? بہت عمدہ شکریہ جزاک اللہ خیرا کثیرا

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

۲۰۲۲ ستمبر